
کیا اپوزیشن اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارے گی؟ پی ٹی آئی حکومت جانے کے بعد کیا ہونے والا ہے ؟ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوگیا
لاہور: (ویب ڈیسک) کالم نگار نسیم شاہد لکھتے ہیں کہ” لیجئے جناب عوام کے نام پر سیاست سیاست کھیلنے کا دور پھر شروع ہو چکا ہے۔ کیا حکومت کیا اپوزیشن سب اس کھیل کا حصہ بن گئے ہیں۔ ایک طرف وزیراعظم عمران خان کی وہی پرانی گردان ہے لٹیروں کو نہیں چھوڑیں گے اور دوسری طرف اپوزیشن ہے جس کا فرمان ہے کہ حکمرانوں نے عوام کو زندہ درگور کر دیا ہے۔
آپ ملکی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں ایک ایسا دائرہ نظر آئے گا جس میں ہماری سیاست مسلسل گھوم رہی ہے۔ کبھی آج کی اپوزیشن اس مقام پر ہوتی ہے جہاں حکومت ہے اور کبھی حکومت اپوزیشن کی جگہ پر کھڑی نظر آئی ہے۔ کبھی دایاں ہاتھ لٹیرا کہلاتا ہے اور کبھی بایاں ہاتھ لٹیرا بن جاتا ہے۔ سب کچھ عوام کے نام پر ہوتا ہے مگر عوام ہیں کہ ہر دور میں پستے چلے جاتے ہیں۔ اب چونکہ انتخابات کے آثار پیدا ہو رہے ہیں اس لئے ہر سیاسی جماعت اپنی اپنی ڈفلی لے کر میدان میں آ چکی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری ہوں یا شہبازشریف عوام کی بدحالی کا رونا رو رہے ہیں اور دوسری طرف حکمران ہیں جن کا کہنا ہے۔ یہ بدحالی ہماری نہیں انہی کی کرپشن کے باعث آئی ہے۔ میں نے تو پاکستانی سیاست کو بہت غور سے دیکھا ہے، عملاً اس میں حصہ بھی لیا ہے۔ میرا پینتالیس سال کا تجربہ یہی بتاتا ہے کہ پاکستان میں سیاست سے زیادہ بے اعتبار، بے حس اور بے مروت کام کوئی اور نہیں۔ کسی اور ملک میں 74برسوں سے سیاست کا یہی نظام چل رہا ہوتا تو وہاں کے عوام اسے چیر پھاڑ کر رکھ دیتے، جھوٹ پر جھوٹ جس نظام کا خاصا ہو، اس سے بہتری کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے۔ ایام جوانی میں بھٹو کے سحر نے اپنی لپیٹ میں لیا تو اس کا بنیادی سبب بھی یہی تھا کہ اب غریبوں کو ان کا حق دلانے کی گھڑی آ گئی ہے۔ بے بس اور لاچار عوام میری طرح بھٹو کے گرویدہ ہوئے اور بڑھ چڑھ کر قائد عوام کو سر پر بٹھایا۔ پیپلزپارٹی کو جب وہ غریبوں کی پارٹی کہتے تھے تو غریب پھولے نہیں سماتے تھے۔ اس دور میں غریبوں کے لئے ایک آس اُمید تو ضرور پیدا ہوئی مگر عملاً کچھ بھی نہ ہوا، بھٹو بھی ریاستی مافیاز کے سامنے بے بس ہو گئے۔ وہ غریبوں کا نعرہ لگاتے اور کام سارے بالادست طبقوں کے کرتے تو شاید نشانِ عبرت بھی نہ بنتے،مگر انہیں اپنا بھرم بھی رکھنا تھا، سو ان کی یہ غلطی ناقابلِ معافی ٹھہری۔ خیر یہ تو بہت پرانی بات ہے آپ گزشتہ تین چار انتخابات اٹھا کر دیکھ لیں، سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم کی تفصیلات نکالیں، ان کے منشور پڑھیں، سب کے سب ایک ہی راگ الاپتی نظر آئیں گی کہ غریبوں کے حالات بدلیں گی، غربت ختم کریں گی، مافیاز سے غریب عوام کو نجات دلائیں گی وغیرہ وغیرہ،لیکن ہوا کچھ بھی نہیں۔ وہی نظامِ سرمایہ داری جاری رہا اور غریب پستے چلے گئے۔ آج تحریک انصاف کی حکومت مہنگائی اور غربت میں اضافے کی وجہ سے شدید تنقید کی زد میں ہے، مگر 2013ء کے انتخابت میں مسلم لیگ (ن) نے بھی اسی بنیاد پر انتخابات میں حصہ لیا تھا کہ وہ غربت میں کمی کرے گی۔ عوام کو جینے کا حق دے گی، لیکن اس کے دور میں بھی حالات جوں کے توں رہے، اس سے پہلے پیپلزپارٹی کی پانچ سال حکومت رہی، وہی جماعت جس نے ہر انتخاب غریبوں کے نام پر لڑا، غریبوں کے لئے کچھ نہ کر سکی۔ جب بھی الیکشن آتے ہیں، ہر جماعت غریبوں کے حق میں انقلابی تبدیلیوں کا نعرہ لگا کر میدان میں کود پڑتی ہے، مگر اس غبارے سے انتخابات کے بعد ہوا نکل جاتی ہے۔ ساری انقلابی باتیں، سارے انقلابی منشور دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں، اگلے پانچ برسوں تک عوام کے نصیب میں جلنا اور کڑھنا ہی رہ جاتا ہے۔