
اپوزیشن کی میل ملاقاتیں،آنیاں جانیاں سب رائیگاں ہو گی،عمران خان 5 سال پورے کرینگے،معروف کالم نگار کا بڑا دعویٰ
لاہور(ویب ڈیسک)نسیم حیدر اپنے کالم میں لکھتے ہیں پی ڈی ایم نے اپنی غلطی کی اصلاح شروع کردی ہے، جس پیپلزپارٹی اور اے این پی کو پی ڈی ایم سے نکالاتھا انہیں پھر سے اتحاد کا حصہ بنانےکی راہ ہموار کی جارہی ہے۔ پی ڈی ایم کے آئندہ اجلاس میں اگر پیپلزپارٹی اور اے این پی کو پھر سے شامل کرلیا جاتا ہے تو یہ سیاسی تدبر کا اظہار ہوگا
کیونکہ غلطی کو تسلیم کرنا عظمت اور عاجزی سمجھا جاتا ہے۔ سیاسی افق پریہ نیک شگون بھی ہوگا کیونکہ منقسم اپوزیشن کی مثال اس لولی اور لنگڑی نہتی فوج جیسی ہوتی ہے جو طاقتور حریف کو زیر کرنے کے لیے سرپٹخنے سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتی۔اپوزیشن کے اسلام آباد کی جانب مارچ سے پہلے یہ حکومت کو پیغام بھی ہوگا کہ پی ڈی ایم مقصد کے حصول میں کس قدر سنجیدہ ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر پی ڈیم ایم ماضی کی طرح فعال کر بھی لی جائے تو اس کا مقصد کیا ہونا چاہیے؟ کیا یہ سب کچھ پی ٹی آئی حکومت کو گرانے کی کوششوں کیلئے کیا جانا چاہیے یا کوئی اس سے بڑا مقصد بھی حاصل کیا جاسکتا ہے؟آصف زرداری اور بلاول بھٹو سے شہباز شریف کی مریم نواز کی موجودگی میں ملاقات نے کم سے کم یہ واضح کردیا ہے کہ فی الحال ن لیگ کے دونوں گروپس کو یقین ہے کہ آگے بڑھنے کے لیے اتحاد ہی واحد راستہ ہے لیکن یہ اپوزیشن کی بدقسمتی ہے کہ وفاق اور صوبائی سطح پر حکومتوں کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب بنانا ان کے بس کی بات نہیں۔اسپیکر کیخلاف تحریک عدم اعتماد ہو یا ق لیگ اور پی ٹی آئی کے ناراض دھڑے کو اپنا سمجھ کر پنجاب میں اس جیسی کوئی کوشش ، یہ بظاہر دیوار سے سر ٹکرانے ہی کے مترادف رہےگا۔اپوزیشن کا دعویٰ ہےکہ منہگائی تلے پسے عوام اب حکومت کو ایک لمحہ بھی دینے کے حق میں نہیں۔فرض کرلیں ،ایسا ہی ہے ، مگر یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ حکومت کیخلاف بار بار کی ناکامی عوام کی نظروں میں اپوزیشن کو طاقتور نہیں مزید کمزور ظاہر کرےگی جبکہ لوگوں کی وہ آس بھی ٹوٹ جائے گی